پیر، 30 نومبر، 2015

قاری کی اڈاریاں (پارٹ ٹو)

قاری کی اڈاریاں (پارٹ ٹو)


قاری صاحب سوشل میڈیا پر کسی تعارف کی محتاج نہیں. ویسے تو عالم دین کے طور پر جانے پہچانے جاتے ھیں. لیکن آئیے آج انکا ایک نیا چہرہ آپ لوگوں کو دکھاتے ھیں جو لوگوں کی نظر اور زھن میں چھپا ھے.
قاری صاحب صبح اٹھتے ھیں. پہلی کال پوپ فرانسس کی ھوتی ھے .
"قاری صاحب پیسوں سے بھرا بیگ بھجوایا تھا کوئی خاطر خواہ آفاقہ نہیں ھوا مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا. جناب ھم کافروں کی فیسبک استمعال کر کہ بھی آپ نمک حلال نہیں کر رھے.
قاری صاحب انھیں تسلی دیتے ھیں. میری سرکار میں اپنی سی پوری کوشسش کر رھا آپ بے فکر رھیں.
ابھی فون رکھا ھی تھا کہ امین شہیدی ناشتا لے کر حاضر ھوتا ھے اور ساتھ میں ایک کالے رنگ کا بیگ انکے تکیہ کے ساتھ رکھ دیتا ھے .
قاری صاحب یہ ناشتا خاص طور پر آپ کہ لیئے سپرم لیڈر خامنہ آئ کی زوجہ نے تیار کر کہ بھیجا ھے . اور یہ نوٹوں سے بھرا بیگ ایرانی حکومت کی طرف سے آپکو تحفہ ھے. باقی آپ خود سمجھ دار ھیں.
قاری صاحب ناشتے کے بعد انکو بھی تسلی دے کر رخصت کر دیتے ھیں.
دوپہر کہ وقت احمدی، پرویزی فرقہ اور پرنس آغا خان خود کھانا لے کر حاضر ھوتے ھیں.
قاری صاحب کہ لیئے کچھ خاص مغربی " مشروبات " اور سونے سے بھرا تھال انکے ھاتھ میں ھوتا .
قاری صاحب آنکھ کہ اشارے سے ملازم کو تھال الماری میں رکھنے کا اشارہ کرتے ھیں.
رسم گھپ شپ ھوتی ھے ایک کاغذ پہ لمبا چوڑا پیغام قاری صاحب کو دیا جاتا ھے اور کمر تھپکا کر وہ بھی رخصت ھو جاتے ھیں.
شام سے کچھ دیر پہلے ورلڈ بنک والوں کا وفد آ جاتا ھے. ایک نئی شاندار لینڈ کروزر اور ساتھ میں ایک بلینک چیک جس پر بنک کہ ایم ڈی کہ دستخط موجود ھوتے قاری صاحب کو عزت کہ ساتھ ایک ڈائری نما تحریر رکھ کر پیش کیا جاتا ھے .
رات کا کھانا تو روزانہ کہ معمول کہ مطابق پرویز احمد غامدی کہ ساتھ ھی کھایا جاتا ھے. تمام دن کی مصروفیات، امت کو نئے نئے فتنوں سے دوچار کرنا، انکے دماغ پر قبضہ کرنا. انکی اپنی عقل نچے رکھ کر خود اس پر بیٹھ جانا. ملحدین بننے کہ طریقے بتانا. معاشرتی اور گھریلو فسادات کروانا. چوری اور ڈاکہ ڈالنے کے طریقے. ھیرا پھیری اور مال کم تولنا . پڑوسیوں کہ حقوق غضب کروانا. منتخب حکومتوں کو گرانا. تہزیب کا بیڑا غرق کرنا. صوبائی نفرتیں ابھارنا.. بے ایمانی کہ نئے نئے طریقے دریافت کرنا. نماز سے غافل کربا . قران کو پڑھ کر بھی غور وفکر نہ کرنا. راستوں میں رکاوٹیں حائل کرنا. جہیز کی لعنت کو پروان چڑھانا، اجتہاد قائم نہ ھونے دینا، امت میں نئے نئے فریقے بنانا. حتی کہ معاشرے میں موجود تمام برائیوں کو پھیلانے کے لیئے شیطانی قوتوں کی مدد طلب کرنا تک زیر بحث ھوتے ھیں.
اب بھی قاری صاحب مطلق ایسے " اچھے خیالات " رکھنے والے کو یقین نہ آئے وہ اپنے دماغ کا علاج کسی اچھے ماھر نفسیات کو دکھائے. اور ان سے دوری اختیار کرے. ورنہ ادارہ آپ کہ ایمان کا زمہ دار نہ ھو گا. شکریہ
حصہ دوم
(کچھ عرصہ سے روزانہ کی بنیاد پر کچھ پوسٹیں اور تحاریر پڑھ کر قریب دو سال بعد مجبور ھو کر قلم اٹھایا ورنہ میں اپنا قلم " نالہ " ڈالنے کے لیئے استمعال کرتا تھا، میں قاری صاحب کو تب سے جانتا ھوں جب یہ نئے لکھنے لکھاری " دانشوڑوں " کا کوئی نام و نشان نہیں تھا . اور کچھ جو قاری صاحب کی وجہ سے ھی " سلیبرٹی " بنے .
بہت سے لوگوں کو جانتا جو جو دوسرں کی تحریروں پر ھاتھ " صاف " کرتے . کہیں سے جملہ اٹھایا اپنے نام سے ساتھ منصوب کر دیا .
جن لوگوں کا خیال ھے " ملحد " نامی مخلوق صرف فیسبک پائی جاتی ھے . آج سے دو سال پہلے میری تحاریر " رحمان والے " پیج پر دستیاب ھیں.
" زندہ ملحد " میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار دکھا جب مجھے پتا چلا کہ میرے ساتھ فرانس میں کام کرنے والا میرا دوست جس نے فزکس میں ماسٹر کیا ھوا ھے ایک پاکستانی ملحد ھے
میں آج جس مقام پر ھوں جس مقام سے واپس آیا میرا خدا بہتر جانتا ھے. جب پہلی بار قاری صاحب سے کومنٹ کہ زریعے ان سے مولاقات ھوئی. اس وقت بہت کم لوگ تھے جو دلائل کہ زریعے انکو جوابات دیتے . مزھب کا معاملہ ایک حساس نوعیت کا ھے . اپنی وال پر لکھتے ڈر ھی لگتا تھا.
میری تحریر کا مقصد قاری صاحب کی حمایت میں لکھنا بلکل نہیں ھے اور نہ ھی انکو میری حمایت کی ضرورت میں اپنے ضمیر کی آواز لکھ رھا جس نے مجبور کیا مجھے لکھنے کو . میرے ساتھ لکھنے والے بہت سے دوست جنکو قاری صاحب سے گلہ رھتا ھے انکی نظر میں قاری صاحب اپنے فوجی مار رھے اور انکی طرف سے لڑتے.
میرے زاتی خیال میں سچائی کہ لیئے آپکو جو بھی راستہ اختیار کرنا پڑے تھوڑا مشکل اور کڑوا ضرور لگے گا لیکن یہی راستہ منزل کو پہنچے گا. میری اس تحریر سے کسی دوست کا دل دکھے تو معزرت خواہ ھوں)
دین میں قاری صاحب کی مثال اس بچے جیسی ھے جس کہ سامنے اس باپ کچھ سیب لا کر رکھتا ھے اور پھر ایک سیب مانگتا . بچہ جلدی سے سارے سیبوں پر سے ایک ایک " بائیٹ " لے لیتا .
باپ کہ دل میں خیال آتا کہ بچہ مجھے سیب دینا نہیں چاھتا اس لیئے سارے سیبوں کو جھوٹا کر رھا
اتنے میں بچہ ایک سیب باپ کی طرف بڑھاتا ھے
ابو جان یہ لیں " یہ والا سیب میٹھا ھے "
آپکو قاری صاحب سے بہت سے باتوں پہ اختلاف ھو سکتا ھے مجھے بھی بہت سے باتوں سے ھو گا . اختلاف رائے آپ کا بنیادی حق ھے ضرور رکھیں کوئی آپ کو روکتا نہیںجو باتیں آپکو ٹھیک لگتی سوچھیں سمجھیں دل کرتا تو مان لیں ورنہ کنارا کر لیں.
کبھی بھی زاتیات کو درمیان میں مت لائیں. دلائل کہ زریعے بات کریں . مقالات بحث و مباحاثہ کریں.
" کئی بار ھماری منزل ایک ھی ھوتی لیکن راستے کا تعین الگ الگ ھوتا "
آپکو جو راستہ آسان اور ٹھیک نظر آتا آپ اس کا انتخاب کریں. دوسرں کہ راستے میں روکاٹیں اور کانٹے نا بچھائیں.
وسلام
عبدالرحمن طارق (تلاش حق)

جمعہ، 31 جنوری، 2014

سیہل بھائی میں نے ایک تحریر لکھ کر پوسٹ کی تھی کیسی لگی ؟ عبدالرحمان بھائی فیس بک استمال کرتے ھوۓ کہاں وقت ملتا اتنی لمبی تحریرہں پڑھنے کا ۔ آپ کو تو پتا کام کے بعد مشکل سے دو تین گھنٹے تو میں استمال کرتا ھوں فیس بک ، ھاں البتہ میں نے لایؑک ضرور کر دی تھی ، جی بہت شکریہ آپ نے لایؑک کرنے وقت نکالا ؎

ناصر بھائی میری ایک تحریر آپکی نظروں سے گزری ھو'' کل پوسٹ کی تھی '' آپ نے کوئی کومنٹ نہیں پاس کیا ،، اہ یار کتنی بار بولا کوئی مختصر تحریر لکھا کرو ، آجکل اتنی لمبی تحریریں کون پڑھتا ھے ؟ لکین ناصر بھائی تحریر تو مختصر ھی تھی اور مختصر ھوتی تو میں مقصد ھی بیان نہ کر پاتا ، ناصر، تمھیں تو پتا میں سمارٹ فون استمال کرتا ھوں اس میں تحریر کچھ زیادہ ھی لمبی نظر آتی ھے ، اور کہاں وقت ملتا تحریر پڑھنے کا ۔ نظر سے گزرتی ھے تو لایؑک ضرور کر دیتا ھوں 

دل ھی ٹوٹ گیا ھمارا تو ...... بھاڑ میں گۓ سب کے لایؑک

منگل، 26 نومبر، 2013

ھمارےؑ جنرل کونسلر

ھمارےؑ جنرل کونسلر

گےؑ دنوں کی بات ھے ھمارا ایک دوست شاھد ھوا کرتا تھا ایک بار موصوف کو کچھ دستاوزات کی تصدیق کے لیۓ اپنے علاقہ کے کونسلر صاحب مطلوب تھے ، ھمارے ملک میں تو کونسلر بھی جیت کر محلہ سے یوں غائب ھوتے ھیں جیسے گدھے کے سر سے سینگھ اور پولیس کے ڈر سے چور ، خیر اتفاق سے راہ جاتے یوں مل ھی گۓ جیسے غریب کی لاٹری نکل آتی ھے، شاھد صاحب نے اپنا معمولی سا کام بیان کیا تو جناب نے گھر آہ کر ملنے کا وقت بتا دیا اور ساتھ جاۓ کی دعوت بھی دے دی ، گھر پہ ملنے کی ایک وجہ شاید سرکار سے گلہ ھو گا کہ کونسا ھمیں آفس آلاٹ کیےؑ ھیں، خیر مقررہ وقت پر وہ گھر پحنچا تو بھائی صاحب باھر آےؑ اطلاع ملی کے صاحب گھر پر نھیں ، بھر کیا تھا جناب ایسے چکر لگے جیسے مداری بندر کو لگواتا ھے، کبھی تو گھر پر نھیں ھوتے کبھی ھونے کے باوجود اطلاع آتی کے صاحب گھر پر نھیں، ایک دن خدا خدا کر کے گھر پر مل ھئ گے تو صاحب جناب نے قلم نہ ھونے کا دکھڑا سنا دیا اب شاھد صاحب بھی اتنے چکر لگا کر عقل مند ھو چکے تھے جیب سے قلم نکال کر صاحب کو پیش کر دی، کونسلر صاحب کے پاس اب نی کرنے کے لیۓ کوئی بیانہ نھیں بچا تھا تو جناب نے دستاوزات بہ ھی اعتراز لگا دیا جیسے پیسے نہ ملنے پر پاسپورٹ کا عملہ لگاتا ھے ،
کچھ عرصہ بعد مجھے اطلاع ملی کے شاھد صاحب کے دستاوزات کی تصدیق ھو چکی لکین دستاوزات داخل کروانے کی تاریخ گزر چکی ھے
،

اتوار، 24 نومبر، 2013

''خوشگوار واقعہ اور ضمیر کا زندہ ھونا''

''خوشگوار واقعہ اور ضمیر کا زندہ ھونا''

یہ 1998ٰٰء کی بات ھے ۔ اسلامیہ ھائ اسکول میں ھماری جماعت انچارچ مقصود صاحب ھوا کرتے تھے ، جن کا روعب ساری جماعت پر اپنا خوب ھوا کرتا تھا اسکول آتے ھوےؑ جب وہ اپنی موٹر سایکل سفید لٹھے کی شلوار قمیض اور چہرے پر سیاہ چشمہ لگا کر آتے تو روعب اور بھی بڑھ جاتا، اب شاہد ان کا تبادلہ یا مدت ملازمت مکمل ھو چکی، ھماری جماعت میں ایک خوش مزاج طالب علم ْ ْکامران صدیقی ْ ٌ ھوا کرتا تھا ،جو شاہد مسٹر بین سے بہت متاثر تھا ، یہ ان دنوں کا واقعہ جب اسکول میں اسپورٹس ڈے چل رھے تھے حاضری اور پڑھاٰئ پر زرا توجہ اتنی نھی دی جاتی،کامران اور کچھ دوست موقع پا کر اسکول کی عقبی دیوار پھلانگ کر اسکول کی جیل سے فرار ھونے میں کامیاب ھو گے، یہ شاید ان کی ایسی پہلی کوشیش حرکت تھی وہ اس میں کامیاب تو ھو گے لکین ٌ اٌستاذ ْ کو کچھ اور ھی منظور تھا، واقعہ کے اگلے ھی دن جماعت میں موجود کچھ شرپسند عناصر جو ھر دور میں موجود ھوتے ھیں اس واقعہ کی تفصیل مقصود صآحب کے روبارو ح کر دی ، جسکا فوری سوموٹو ایکشن لیتے ھوےؑ انھوں نے سب طالب علموں کو لائن حاضر کر لیا، اب اٌستاذ جی اس دن یا تو گھر سے ھائی کمان سے یا باھر کسی نا خشگوار واقعہ سے متاثر ھو کر آے تھے، چھڑی اٹھائ اور باری باری ان طالب علموں کو سزا سے روشناس کروانے لگے رویا اتنا سخت تھا کے پوری جماعت پر لرزہ طاری ھو گیا، اب باری آہ گی کامران صاحب کی لرزتی ٹانگوں رونی صورت سھما ھوا چہرہ اور آنسو ڈر کی وجہ سے نکلنے کے قریب تھے، مقصود صاحب ںے پہلا وار کیا جو قسمت سے خالی گیا کامران صاحب نے رونے کی ایکٹینگ کرتے ھوےؑ چھڑی کو تھام لیا مقصود صاحب کا غصہ اور بڑھ گیا،دوسرا وار ھونا ھئ تھا کے اگلے ھی لمحے ایک نہایت ھی موضوع ترکیب اچانک اس کے دماغ میں ٹپک پڑی، یہ جملہ کیسے اس کے ذھن میں آیا ، ْ سر جی میرئ ایک بات پیلے سن لیں ''سر جی میرا ضمیر زندہ ھو گیا " ایک خاموشی کے بعد ایک دور دار قحقہ پوری فضاء میں بلند ھوا ، اور مقصود صاحب کے غصے کا لیول ایک دم سے نچے آہ گیا جو کوہ ھمالیہ کی چوٹی کو چھو رھا تھا وہ بھی اپنی ھنسی کو قابو نہ کر سکے، پوری جماعت پر جو ایک خوف کا عالم تھا جوشی میں تبدیل ھو گیا، اور مقصود صاحب نے اٌسے کچھ سزا دے بغیر حھوڑ دیا' ؎

ھمارے وطن کی حالت بھی ایسے ھی غلطیوں سے بھرئ ھوئ ھے لکیں فرق صرف اتنا ھے کے ھمیں ھر طرف سے مار تو پڑ رھی ھے لکین ھمارہ ضمیر تو اتنا مردہ ھو چکا کے جھوٹ ؐموٹ کا بھی زندہ نھی ھوتا ، مار کھانے والے تو اس بات سے نالاں ھے اور الٹا مطالبہ کرتے ھٰں کے مارنے والوں کی تعداد بڑھائ جاےؑ،

تحریر و یاداشت۔ عبدالرٌحمان طارق

تنگ نظر

تنگ نظر

دیگر ممالک کی طرح آج فرانس میں بھی ھالووین شکلیں بگاڑنے کا عالمی دن منایا گیا، جس میں کچھ اپنے ھم وطن اور ایشیائی بشندوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،جن لوگوں کا ثقافتی دن ھے ان کا تو اپنی ثقافت کے طور بر یہ سب کچھ کرنا ٹھیک لکین ھمارے مسلمانوں کا اس ظرح شکلیں بگاڑنا کچھ عجیب سا لگا ، غلطی سے ھم پوچھ بیٹھے تو جواب ملا '' ایک تو آپ جیسے تنگ نظر لوگ یہاں آہ کر بھی روشن خیال نہں ھوتے اور ھمیشہ پچھے ھے رھتے ھیں کبھی ترقی نہں کر سکتے'' بئی ھم ان کے ملک میں رھتے ھیں ان کی ثقافت اپنانی چاھیے، شاید بات اس نے ٹھیک کی میرے جیسئ سوچ والے کبھی ترقی نیں کر سکتے،
کام سے فارغ ھوا تو گھر کی راہ لی، میڑو میں سوار ھوا تو چند مہزب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ماسک اور رنگ چڑھاےؑ گیت گاتے ھوےؑ وھاں پہلے سے موجود تھے، شروع میں تو اٌن کو دیکھ کر اپنی تنگ نظری کو پش پشت ڈالتے ھوےؑ ان کو دیکھ کر لطف اندوز ھونے کی ناکام کوشیش کی، میڑو کا اسٹاپ آیا تو دو مہزب نوجوان نے میڑو کے دروازں کو ھی واش روم کا دروازہ سمجھتے ھوےؑ اپنی پتلون کا روشن دان کھول کر باھر لگے پودوں کو پانی دینے لگے،ان میں سے ایک اچھی ثقافت اور مہزب معاشرے کی نوجوان نے میرئ حقارت بھرئ نظروں کو بھانپتے ھوۓ الکوحل کی خالی بوتل میرے پاوؑں کے قریب دے ماری جو میرے باوؑں کو چھوتی ھوئی گزر گئی، میرا اسٹاپ آیا تو گھر کی راہ لی،
راستے میں مجھے اپنے ھم وطن کی بات یاد آ رھی تھی، اور گھر پہنچنے تک میں دوبارہ تنگ نظر ھو چکا تھا،

آپ بیتی :عبدالرحمان طارق

ایک قوم ایک پاکیستانی

ایک قوم ایک پاکستانی

محرم کے مہینہ کے ساتھ اسلامی سال کا آغاز ھوا- اس مہینہ کی اصل اھمیت اور مقصد ھم کھو چکے ھیں ـ اغاز ھوتے ھئ کی ایسے مسلمانوں کا اسلام جاگ جاتا جہنوں نے قرآن کی اس آیات کو مکمل پڑھنا بھی مناسب بہ سمجھا کہ ٗ ْ نماز کے قریب مت جاوؑ '' اس آیت کا دوسرا حصہ پڑھنا کا ان کا آج تک وقت نھیں ملا اور اتنی آہت سے ھئ کام چلا رھے ھیں ، اور شروع ھو جاتے ھیں ایک دوسرے کو کافر لعنتی اس کے علاوہ بھی بہت غیر مہزب القاب دہیے جاتے ھیں ،شعیہ اھل حق ھے یا سنی اسلام کے بقا کی جنگ لڑھ رھا
۔ یہ فیصلہ اللہ بر چھوڑ دیں جو بہتر جانتااور بھائی بھائی بن جائیں ویسے بھی اپنے کرنے والا کام ھم سے ھوتا نھیں اور اللہ کے کاموں میں دخل دیتے ھیں-

ویسے تو ھمارئ قوم 'معاف کجیے گا ' قوم ' کا لفظ استمال کیا ھر بات پر منتشر دیکھائی دیتی ھے ملالہ ، طالبان ،سلالہ ، سیاست ، فوج ، کوئی ایک قومی ایشو اٹھا کر دیکھ لیں ھر ایشو پر پاکستان سے لے کر 1947ء ، 1971 ، اور آج تک تقسیم کا عمل جاری ھے، پاکستان سیکولر ریاست کے طور پر بنا یا اسلامی ریاست ، قایداعظم سیکولر تھے یا مزھبی ، مارشل لا ؑ کا دور بہتر یا جمہورئ، بھٹو کو اپنے کیے کی سزا ملی یا شہید ، ضیاء اسلام کا نفاز چاھتا تھا یا منافق ، سلمان تاثیر شہید ھوا یا ممتاز قادری غازی ، حکیم اللہ محسود شہید ھوا یا اپنے انجام کو پُہنچا ، ھر ایک کا اپنا زاتی نقطہ نظر ھوتا ضرور ھے لکین قومی مسائل پر ھم سب کو ایک ھو جانا چاھیے، اس میں زیادہ کردار تو ویسے ھمارے زرائع ابلاغ کا ھے بورا دن سیاستدانوں اور بکاوؑ دانشور کو بٹھا کر دس بارہ سالوں سے فضول میں قوم کو زہنی مریض بنا رھے آج تک کسی پروگرام سے مسائل کا حل نکلا؟ سواےؑ آپس میں لڑوانے سے قوم کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کے جو پہلے ھی حصوں میں بٹی ھوئی ان کو اس سے کوئی پرواہ نہں بس ان کا کاروبار چلنا چاھیے قوم بھوک سے مر رھئ ھے اور ان کا سب سے بڑا مسلہؑ وینا ملک اور شیخ رشید کا مسالہ دار مقالمہ ھے ،کسی اداکار کی نجہی زندگی کے اسکنڈل ، کسی سیاستدان کی گھریلو مسائل یہ کیا ھے انسان کو ان انہی چیزوں میں اتنا مگن کر دو کے یہ حقیقت کے بارے میں سوچ ھی نہ سکیں،
ایسے ہی لوگ ہیں کہ جن کے بارے الله کریم و رحیم ارشاد فرماتا ہے کہ :
"جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ ، وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کر رہے ہیں ، خبردار رہو کہ یہی فسادی ہیں مگر انہیں شعور نہیں ".
کوئی کیسے اٹھارہ کروڑ پر اپنی دھونس چلا سکتا ہے کوئی کیسے اٹھارہ کروڑ کو شکست دے سکتا ہے، اتنی بے بسی اتنی لاچارگی اور اتنی ذلّت کیوں ہے؟ پھر دماغ سے ایک آواز آتی ہے کہ ہم اٹھارہ کروڑ کہاں ہیں ..ہم تو چوٹی چوٹی ٹولیاں ہیں .. کوئی شیعہ سنی ہے تو کوئی پنجابی سندھی بلوچی پٹھان رہی سہی کسر ان سیاسی جماعتوں نے پوری کر دی ...کاش ک ہم سب صرف ایک انسان ، ایک مسلمان اور ایک پاکستانی بن جائیں
صرف اور صرف ایک پاکستانی

تحریر ۔ عندالرحمان طارق

دین کی حقانیت

دین کی حقانیت

کیا ھم مسلمان اللہ کی واحدانیت پر اور اس کی حقانیت پر ایمان نہیں رکھتے جو روٹی پھل اور جانورں پر اس کا نام تلاش کرتے ھیں ، کیا ھمیں قرآن کی سچائی پر یقین نھیں جو سائنسدانوں کے تجربوں کے بعد قرآن کے سچا ھونے کا سرٹیفیکیٹ لیتے ھیں، چودہ سو چونتیس سال گزر جانے کو بعد بھی ابھی تک ھم اپنے دین کی حقانیت کی تلاش میں ھیں ، جبکہ ھمارے دین کے علم کی بدولت آج کفار اپنے نظام کو کامبیاب کر چکا حلانکہ انھوں نے تو اس کے سچا ھونے کا یقین نھیں کیا ، خدا را اپنے منصب کو پہچانیے !! اللہ ھمیں دین پر چلنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ، آمین !!!
جزاک اللہ ، عبدالرحمان طارق